اور گلوں کا کام نہیں ہوتا کوئی
خوشبو کا انعام نہیں ہوتا کوئی
تھک گیا ایک کہانی سنتے سنتے میں
کیا اس کا انجام نہیں ہوتا کوئی
صحراؤں میں خاک اڑاتا پھرتا ہوں
اس کے علاوہ کام نہیں ہوتا کوئی
دیکھو تو کیا خوش رہتے ہیں دل والے
پوچھو تو آرام نہیں ہوتا کوئی
چٹانیں بس سخت ہوا کرتی ہیں زیبؔ
چٹانوں کا نام نہیں ہوتا کوئی
غزل
اور گلوں کا کام نہیں ہوتا کوئی
زیب غوری