اور بھی آئیں گے کچھ اہل وفا میرے بعد
اور بھی نکھرے گی دنیا کی فضا میرے بعد
اعتراف اپنی خطاؤں کا میں کرتا ہی چلوں
جانے کس کس کو ملے میری سزا میرے بعد
زندگی ساتھ ہے اور دار و رسن پر ہے نظر
خود بدل جائے گا مفہوم قضا میرے بعد
غائبانہ بھی تعارف مرا کیا کیا نہ ہوا
ہائے وہ شخص کہ جو مجھ سے ملا میرے بعد
زخم دل ہیں مرے پھولوں کی گذر گاہوں میں
نرم رو رہنا ذرا باد صبا میرے بعد
کل تری بزم کا ہر ایک طرحدار وفا
لذت رشک سے محروم ہوا میرے بعد
کاش اس سے بھی تعارف مرا ہوتا نوریؔ
جس پہ وہ پہلے پہل ہوں گے خفا میرے بعد

غزل
اور بھی آئیں گے کچھ اہل وفا میرے بعد
کرار نوری