اور انت میں جدائی بڑی کرب ناک ہے
تجھ مجھ میں یوں تو روز ازل سے وفاق ہے
نیچے کہیں بدن میں مٹی خواہشوں کے خواب
اوپر درازیٔ غم دوراں کی خاک ہے
سکھیاں سجیلی بھور نین درپنا کی اور
آنند پور پور عجب انہماک ہے
قلعوں کے یہ حصار نہیں قربتوں کے دیار
ان برجیوں کے پار ہوائے فراق ہے
نیارے پیا کے روپ کہیں گن کہیں سروپ
متھرا کا بادشاہ کہیں بھینسوں کا چاک ہے
یہ راجدھانیاں یہاں بے بس کہانیاں
کنگن میں ہاتھ ہے کہیں نتھلی میں ناک ہے
میٹھا مٹھاس سے ہے وہ اجلا کپاس سے
باتوں میں اشتراک ملن میں تپاک ہے
مٹی کی سب سفارتیں بندھن بشارتیں
سبزہ ندی کناروں مزاروں پہ آک ہے
حق گوئی ہم رکاب دریدہ بدن کے باب
کربل کتاب صدق سیاق و سباق ہے
غزل
اور انت میں جدائی بڑی کرب ناک ہے
ناصر شہزاد