EN हिंदी
عطار کے مسکن میں یہ کیسی اداسی ہے | شیح شیری
attar ke maskan mein ye kaisi udasi hai

غزل

عطار کے مسکن میں یہ کیسی اداسی ہے

افروز عالم

;

عطار کے مسکن میں یہ کیسی اداسی ہے
سونے کی مقابل میں ہر سمت ہی مٹی ہے

تو صاحب قدرت ہے تو اپنا کرم رکھنا
صحرا کی طرف مائل حالات کی کشتی ہے

روشن ہے درخشاں ہے یہ دور بظاہر تو
مزدور کے بس میں تو بس ریڑھ کی ہڈی ہے

لمحوں کی تعاقب میں صدیوں کی دھروہر تھی
افسوس کے دامن میں غربت کی یہ بستی ہے

وہ صاحب مسند ہیں اس سے انہیں کیا مطلب
جذبوں کے دریچوں سے جاری کوئی ندی ہے

ہر خواب شکستہ ہے تعمیر نشیمن کا
ہر صبح کے ماتھے پر بازار کی گرمی ہے

کچھ اور مسائل سے الجھے گا ابھی عالمؔ
ہر صاحب عالم پہ چھائی ابھی مستی ہے