EN हिंदी
اسیروں میں بھی ہو جائیں جو کچھ آشفتہ سر پیدا | شیح شیری
asiron mein bhi ho jaen jo kuchh aashufta-sar paida

غزل

اسیروں میں بھی ہو جائیں جو کچھ آشفتہ سر پیدا

اقبال سہیل

;

اسیروں میں بھی ہو جائیں جو کچھ آشفتہ سر پیدا
ابھی دیوار زنداں میں ہوا جاتا ہے در پیدا

کیے ہیں چاک دل سے بوئے گل نے بال و پر پیدا
ہوس ہے زندگانی کی تو ذوق مرگ کر پیدا

یہ مشت خاک اگر کر لے پر و بال نظر پیدا
تو اوج لامکاں تک ہوں ہزاروں رہ گزر پیدا

جمال دوست پنہاں پردۂ شمس و قمر پیدا
یہی پردے تو کرتے ہیں تقاضائے نظر پیدا

محبت تیرے صدقے تو نے کر دی وہ نظر پیدا
جدھر آنکھیں اٹھیں ہوتا ہے حسن جلوہ گر پیدا

شب غم اب منائے خیر اپنے جیب و دامن کی
رہے دست جنوں باقی تو کر لیں گے سحر پیدا

مذاق سر بلندی ہو تو پھر دیر و حرم کیسے
جبیں سائی کی فطرت نے کیے ہیں سنگ در پیدا

نثار اس لن ترانی کے یہ کیا کم ہے شرف اس کا
دل خوددار نے کر لی نگاہ خود نگر پیدا

جوانو یہ صدائیں آ رہی ہیں آبشاروں سے
چٹانیں چور ہو جائیں جو ہو عزم سفر پیدا

وہ شبنم کا سکوں ہو یا کہ پروانے کی بیتابی
اگر اڑنے کی دھن ہوگی تو ہوں گے بال و پر پیدا

سہیلؔ اب پوچھنا ہے انقلاب آسمانی سے
ہماری شام غم کی بھی کبھی ہوگی سحر پیدا