EN हिंदी
اسیری میں تباہی رونق کاشانہ ہو جائے | شیح شیری
asiri mein tabahi raunaq-e-kashana ho jae

غزل

اسیری میں تباہی رونق کاشانہ ہو جائے

محمد زکریا خان

;

اسیری میں تباہی رونق کاشانہ ہو جائے
قفس ہی نالوں سے جل کر چراغ خانہ ہو جائے

تغافل سازگار شوق اہل درد کیا ہوگا
ادا سے دو فریب ایسا کہ دل دیوانہ ہو جائے

نہ کہنا غیر سے قاصد کہ میں مطلب نہیں سمجھا
پیام یار ہے ہے معنئ بیگانہ ہو جائے

نہیں کیوں حضرت موسیٰ کی بیتابی کے ہم پیرو
کہ راز دل زباں پر آئے اور افسانہ ہو جائے

کہاں تک ضبط بے تابی دل مسکین مجھے ڈر ہے
تری خوئے تحمل سے وہ بے پروا نہ ہو جائے

فغاں کرتے ہوئے جا پہنچو اس کی بزم عشرت میں
کبھی تو اے ذکیؔ یہ شوخئ رندانہ ہو جائے