EN हिंदी
اسیران عشق بتاں اور بھی ہیں | شیح شیری
asiran-e-ishq-e-butan aur bhi hain

غزل

اسیران عشق بتاں اور بھی ہیں

للن چودھری

;

اسیران عشق بتاں اور بھی ہیں
نہیں میں ہی محو فغاں اور بھی ہیں

ابھی یہ جفا کا ہے آغاز اے دل
وفا کے ابھی امتحاں اور بھی ہیں

نہیں اک فلک کی ہے مجھ پر عنایت
مرے حال پر مہرباں اور بھی ہیں

ہمیں سے ہے کیوں لاگ برق تپاں کو
چمن میں کئی آشیاں اور بھی ہیں

رہ عشق میں مٹ گئے ہم تو کیا غم
رہ عشق میں کارواں اور بھی ہیں

کہا جب سے ہے حال دل ان سے اپنا
وہ مجھ سے ہوئے بد گماں اور بھی ہیں

وطن کی ترقی پہ خوش ہو نہ آفتؔ
ابھی بے کس و بے مکاں اور بھی ہیں