EN हिंदी
اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے | شیح شیری
asir-e-panja-e-ahd-e-shabab kar ke mujhe

غزل

اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے

مضطر خیرآبادی

;

اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے

کسی کے درد محبت نے عمر بھر کے لیے
خدا سے مانگ لیا انتخاب کر کے مجھے

یہ ان کے حسن کو ہے صورت آفریں سے گلہ
غضب میں ڈال دیا لا جواب کر کے مجھے

وہ پاس آنے نہ پائے کہ آئی موت کی نیند
نصیب سو گئے مصروف خواب کر کے مجھے

مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت
کریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے

میں ان کے پردۂ بے جا سے مر گیا مضطرؔ
انھوں نے مار ہی ڈالا حجاب کر کے مجھے