اسیر بزم ہوں خلوت کی جستجو میں ہوں
میں اپنے آپ سے ملنے کی آرزو میں ہوں
مری سرشت میں رنگ بہار ہے لیکن
بہت دنوں سے کسی باغ بے نمو میں ہوں
تو مجھ کو بھول گیا ہے مگر مرے مطرب
میں درد بن کے ترے نغمۂ گلو میں ہوں
خزاں رسیدہ کسی نخل نیم جاں کے تلے
مجھے بھی دیکھ اسی شام زرد رو میں ہوں
بھٹکتا رہتا ہوں شام و سحر نہیں معلوم
میں کسی تلاش میں ہوں کس کی جستجو میں ہوں
وہ جس کے طرز مسیحائی پر ہے شہر نثار
اسی کی تیغ سے ڈوبا ہوا لہو میں ہوں
میں ایک آتش خواب آفریدہ کی صورت
کبھی چراغ کی لو میں کبھی سبو میں ہوں
تو میرے لفظوں سے باہر مجھے تلاش نہ کر
چھپا ہوا میں کہیں اپنی گفتگو میں ہوں
پکارتا ہوں مدد کو کوئی نہیں آتا
ستم کی شام ہے اور نرغۂ عدو میں ہوں
غزل
اسیر بزم ہوں خلوت کی جستجو میں ہوں
فراست رضوی