اشکوں میں قلم ڈبو رہا ہے
فن کار جوان ہو رہا ہے
مقتل کے دکھا رہا ہے منظر
کاغذ کو لہو سے دھو رہا ہے
ظالم کو سکھا رہا ہے انصاف
پتھر میں درخت بو رہا ہے
پربت سے لڑا رہا ہے آنکھیں
مٹی سے طلوع ہو رہا ہے
ہاری ہوئی رات کا سویرا
غنچوں کی جبیں بھگو رہا ہے
ذرے کو بنا کے ایک قوت
خود اپنا مقام کھو رہا ہے
لوہے کو اجل کی دھار دے کر
خود اس کا شکار ہو رہا ہے
محلوں میں نہیں کسی کو آرام
فٹ پاتھ پہ کوئی سو رہا ہے
چھوتا نہیں ڈر سے پھول کوئی
کانٹوں کو کوئی پرو رہا ہے
خنداں ہیں گلی گلی ستارے
گھر گھر کا چراغ رو رہا ہے
سینے میں کوئی خیال زلفیؔ
سوئیاں سی چبھو چبھو رہا ہے

غزل
اشکوں میں قلم ڈبو رہا ہے
سیف زلفی