اشکوں کا مری آنکھ سے پیغام نہ آئے
الزام یہ اے دوست تیرے نام نہ آئے
کیا کیجیئے درمان مریض غم الفت
جب کوئی دوا اور دعا کام نہ آئے
پھر مجمع اغیار تہ بام کھڑا ہے
اس شوخ سے کہہ دو کہ لب بام نہ آئے
افسانہ مرا زیب لب بلبل و گل ہے
ڈرتا ہوں کہیں آپ پہ الزام نہ آئے
کیا درد کے ماروں پہ وہ کرتے ہیں عنایت
ایسا ہے تو اے دل مجھے آرام نہ آئے
اے ساقی مے خانہ ترے دور میں یہ کیا
ترسا کریں ہم اور کوئی جام نہ آئے
اک بار اتر جائے جو ساقی کی نظر سے
تا عمر جمالؔ اس کی طرف جام نہ آئے
غزل
اشکوں کا مری آنکھ سے پیغام نہ آئے
ہربنس لال انیجہ جمالؔ