EN हिंदी
اشک پلکوں پہ جو آئیں تو چھپائے نہ بنے | شیح شیری
ashk palkon pe jo aaen to chhupae na bane

غزل

اشک پلکوں پہ جو آئیں تو چھپائے نہ بنے

مشتاق انجم

;

اشک پلکوں پہ جو آئیں تو چھپائے نہ بنے
ٹوٹ کر بکھریں یہ موتی تو اٹھائے نہ بنے

قہر ہے اپنے لیے سوز دروں کا عالم
دیکھنا گر کوئی چاہے تو دکھائے نہ بنے

کس طرح ہاتھ اٹھاؤں میں دعا کی خاطر
ہاتھ اک پل بھی تو سینے سے ہٹائے نہ بنے

قصۂ حسرت دل ہم سے بیاں کیا ہوگا
بے رخی ان کی ہے ایسی کہ بتائے نہ بنے

ظلم کو ظلم سمجھتا ہے کہاں وہ ظالم
حال دل اپنا ستم گر کو سنائے نہ بنے

کون سی بات تھی کیا طرز ادا تھی انجمؔ
نقش ایسا ہوا دل پر کہ مٹائے نہ بنے