اشک جو آنکھ میں ابلتے ہیں
دیپ دل کے انہی سے جلتے ہیں
موسموں کا گلہ نہیں کرتے
گر کے جو آدمی سنبھلتے ہیں
غم جان بہار کے صدقے
غم جہاں کے اسی سے ٹلتے ہیں
ان کو آخر جنوں سے کیا حاصل
پیرہن روز جو بدلتے ہیں
ہم نے گرمیٔ شمع کیا کرنی
گرمیٔ شوق میں پگھلتے ہیں
واعظ نا سمجھ پئیں شربت
ہم کہاں خلد سے بہلتے ہیں
کیف و مستی شجاعؔ فلک تک ہے
درد یوں قلب میں مچلتے ہیں

غزل
اشک جو آنکھ میں ابلتے ہیں
شجاع