اشک گلگوں کو نہ خون شہدا کو دیکھا
شوخ جیسا کہ ترے رنگ حنا کو دیکھا
تجھ کو دیکھا نہ ترے ناز و ادا کو دیکھا
تیری ہر طرز میں اک شان خدا کو دیکھا
ہیں تجھے دیکھ کے حوران بہشتی بیتاب
یا ترے کشتۂ انداز و ادا کو دیکھا
تشنۂ آب دم تیغ نے پینا کیسا
آنکھ اٹھا کر نہ کبھی آب بقا کو دیکھا
مجھے کافر ہی بتانا ہے یہ واعظ کمبخت
میں نے بندوں میں کئی بار خدا کو دیکھا
نکہت زلف معنبر کو چمن میں پایا
آتے جاتے ترے کوچے میں صبا کو دیکھا
مائلؔ ایمان ہے بالغیب ہمیں لوگوں کا
کہ پیمبر کو ہے دیکھا نہ خدا کو دیکھا
غزل
اشک گلگوں کو نہ خون شہدا کو دیکھا
مرزا مائل دہلوی