اشک در اشک وحی لوگ رواں ملتے ہیں
خواب کی ریت پہ جن جن کے نشاں ملتے ہیں
میرے دیوان کے ماتھے پہ یہ کس نے لکھا
خون میں بھیگے ورق سارے یہاں ملتے ہیں
میں نے اک شخص سے اک بار یوں ہی پوچھا تھا
آپ کی طرح حسیں لوگ کہاں ملتے ہیں
ایک مدت سے اسے لوگ افق کہتے ہیں
ایک مدت سے کئی دریا جہاں ملتے ہیں
ایک وہ دل جہاں محبوب رہا کرتا ہے
پاس اس دل کے کہیں اللہ میاں ملتے ہیں
جن نگاہوں میں محبت کے مکیں ہوتے ہیں
ان نگاہوں میں ہی خوشبو کے مکاں ملتے ہیں
غزل
اشک در اشک وحی لوگ رواں ملتے ہیں
تری پراری