EN हिंदी
اشک بن کر جو چھلکتی رہی مٹی میری | شیح شیری
ashk ban kar jo chhalakti rahi miTTi meri

غزل

اشک بن کر جو چھلکتی رہی مٹی میری

دوجیندر دوج

;

اشک بن کر جو چھلکتی رہی مٹی میری
شعلے کچھ یوں بھی اگلتی رہی مٹی میری

میرے ہونے کا سبب مجھ کو بتاتی لیکن
میرے پیروں میں دھڑکتی رہی مٹی میری

کچھ تو باقی تھا مری مٹی سے رشتہ میرا
میری مٹی کو ترستی رہی مٹی میری

دور پردیش کے تارے میں بھی شبنم کی طرح
میری آنکھوں میں چمکتی رہی مٹی میری

لوک نرتیوں کے کئی تال سہانے بن کر
میرے پیروں میں تھرکتی رہی مٹی میری

صرف روٹی کے لیے دور وطن سے اپنے
در بہ در یوں ہی بھٹکتی رہی مٹی میری

میں جہاں بھی تھا میرا ساتھ نہ چھوڑا اس نے
ذہن میں میرے مہکتی رہی مٹی میری

کوششیں جتنی بچانے کی اسے کی میں نے
اور اتنی ہی دھڑکتی رہی مٹی میری