اشک باری نہیں فرقت میں شررباری ہے
آنکھ میں خون کا قطرہ ہے کہ چنگاری ہے
ہر نفس زیست گزر جانے کا غم طاری ہے
موت کا خوف بھی اک روح کی بیماری ہے
باوجودیکہ محبت کوئی زنجیر نہیں
پھر بھی دل کو مرے احساس گرفتاری ہے
کچھ اس انداز سے اس نے غم فرقت بخشا
جیسے یہ بھی کوئی انعام وفاداری ہے
غم خاموش کو بے وجہ تسلی دینا
دل نوازی کی یہ صورت بھی دل آزاری ہے
روز حالات بدلتے ہیں بشرط توفیق
زیست مجموعۂ آسانی و دشواری ہے
جاگنا عشق میں ہر ایک کی تقدیر نہیں
نیند قربان ہو جس پر یہ وہ بیداری ہے
کی مرے ہاتھ سے یوں نذر بہار اس نے قبول
جیسے یہ پھول نہیں ہے کوئی چنگاری ہے
اک تغافل سے ہوا عشق کا دل کو احساس
اس کی غفلت کا نتیجہ مری ہشیاری ہے
یوں بھی آرائش پیہم میں الجھتا ہے کوئی
یہ خود آرائی ہے دیکھو کہ خود آزاری ہے
ماتم عشق سے فرصت نہیں ملتی ہے صباؔ
روز و شب اپنی امیدوں کو عزا داری ہے
غزل
اشک باری نہیں فرقت میں شررباری ہے
صبا اکبرآبادی