EN हिंदी
اشک آیا آنکھ میں جلتا ہوا | شیح شیری
ashk aaya aankh mein jalta hua

غزل

اشک آیا آنکھ میں جلتا ہوا

فاضل انصاری

;

اشک آیا آنکھ میں جلتا ہوا
آج سوز غم کا اندازہ ہوا

زندگی گزری امید و یاس میں
دل کبھی گلشن کبھی صحرا ہوا

ذکر زلف یار رہنے دو ابھی
مسئلہ ہے زیست کا الجھا ہوا

بن گیا دامن میں وہ آنسو گہر
جو نہ میری آنکھ کا تارا ہوا

بارہا رک رک گئی نبض جہاں
حسن کا جادو ہے کیا چلتا ہوا

گردشوں سے کیا مجھے دے گا نجات
جام خود گردش میں ہے آیا ہوا

دل وہ کیا جو غم سے ہو نا آشنا
غم وہ کیا جس کا کہ اندازہ ہوا

ہم پریشاں حال فاضلؔ سے ملے
ہے طبیعت کا بہت سلجھا ہوا