اشک آنکھوں میں لئے آٹھوں پہر دیکھے گا کون
ہم نہیں ہوں گے تو تیری رہ گزر دیکھے گا کون
شمع بھی بجھ جائے گی پروانہ بھی جل جائے گا
رات کے دونوں مسافر ہیں شجر دیکھے گا کون
سونے اور چاندی کے برتن کی نمائش ہے یہاں
میں ہوں کوزہ گر مرا دست ہنر دیکھے گا کون
جس قدر ڈوبا ہوا ہوں خود میں اپنے خون میں
خود کو اپنے خون میں یوں تر بہ تر دیکھے گا کون
ہر طرف مقتل میں ہے چھائی ہوئی ویرانیاں
نیزۂ باطل پہ آخر میرا سر دیکھے گا کون
میرے ظاہر پر نگاہیں سب کی ہیں افضلؔ مگر
میرے اندر جو چھپا ہے وہ گہر دیکھے گا کون
غزل
اشک آنکھوں میں لئے آٹھوں پہر دیکھے گا کون
افضل الہ آبادی