اشک آنکھوں میں ڈر سے لا نہ سکے
دل کی بھڑکی ہوئی بجھا نہ سکے
نہ ہلی جب زباں نزاکت سے
رہ گئے دیکھ کر بلا نہ سکے
تھیں جو اس میں حیا کی کچھ باتیں
شکوہ میرا وہ لب پہ لا نہ سکے
کیا ہوئے تیرے حوصلے اے اشک
حرف تقدیر کو مٹا نہ سکے
تھا یہ خطرہ کہیں پسند نہ ہوں
گالیاں بھی مجھے سنا نہ سکے
گو بہت پاس غیر تھا لیکن
آنکھ ہم سے بھی وہ چرا نہ سکے
پاؤں چوما کیے حنا کی طرح
جب کوئی اور رنگ لا نہ سکے
خامشی تھی بہ شکل زخم مجھے
لب تک اپنے سوال آ نہ سکے
نہ ملی اس نے پاؤں میں مہندی
رنگ اپنا عدو جما نہ سکے
اضطراب قضا ہوا یہ نسیمؔ
کہ گلے بھی اسے لگا نہ سکے
غزل
اشک آنکھوں میں ڈر سے لا نہ سکے
نسیم دہلوی