اشعار میں جو میرے کرن جستجو کی ہے
میراث یہ بھی تیرے ہی مہر نمو کی ہے
نظروں میں اب بھی ہیں ترے لہجے کے ماہ و نجم
اب بھی سماعتوں میں چمک گفتگو کی ہے
تیری پکار ہے کہ یہ بوندیں ہیں اوس کی
آواز نغمہ ہے کہ صدا آب جو کی ہے
دیوار ضبط ٹوٹ بھی سکتی ہے کچھ کروں
فوارہ چھوٹ جائے وہ حالت لہو کی ہے
یوں پھول تو برستے نہ تھے کوئے یار میں
یہ ہم گزرتے ہیں کہ سواری عدو کی ہے
پیاسوں کو انتخاب کی جرأت نہ کوئی حق
کیا پوچھئے حضور یہ کس کے سبو کی ہے
ارشدؔ وہ سامنے ہی تو ہے شاخ دسترس
دوری بس ایک جست بلند آرزو کی ہے
غزل
اشعار میں جو میرے کرن جستجو کی ہے
ارشد عبد الحمید