EN हिंदी
اشعار کی تخلیق میں جلتا ہے جگر کیوں | شیح شیری
ashaar ki taKHliq mein jalta hai jigar kyun

غزل

اشعار کی تخلیق میں جلتا ہے جگر کیوں

مہندر پرتاپ چاند

;

اشعار کی تخلیق میں جلتا ہے جگر کیوں
یا رب مجھے بخشا ہے یہ جاں سوز ہنر کیوں

غم عشق کی سوغات ہے سینے سے لگا لے
پھولوں کی تمنا ہے تو کانٹوں سے حذر کیوں

کچھ حد سے سوا ہیں مرے غم خوار وگرنہ
رہتی ہے مرے حال پہ یاروں کی نظر کیوں

کل جس کو سر آنکھوں پر بٹھاتا تھا زمانہ
بیٹھا ہے سر راہ وہ اب خاک بسر کیوں

عارض کے گلابوں پہ اداسی کی یہ شبنم
نمناک ہیں آنکھیں تری آج اے گل تر کیوں

پھر کون گیا پچھلے پہر بزم سے اٹھ کر
پھر سوگ کا عالم ہے یہ ہنگام سحر کیوں

پتھر کے سوا چاندؔ یہاں کچھ نہ ملے گا
بیٹھا ہے سجائے ہوئے شیشوں کا تو گھر کیوں