اسباب کہاں جان جہاں دیکھتے رہنا
خالی کوئی دم ہے یہ مکاں دیکھتے رہنا
تا عمر ترے شہر میں رہنا بھی نہیں ہے
ملتی ہے کہاں جائے اماں دیکھتے رہنا
پلکوں پہ کوئی ہے لب اظہار کی صورت
رکھتا ہوں میں خنجر پہ زباں دیکھتے رہنا
آنسو مرے بچوں کی طرح خون سے کھیلیں
کچھ کھیل نہیں گھر کا زیاں دیکھتے رہنا
اک عرصۂ جاں تک ہی یہ منظر نہیں موقوف
پھر قصۂ عالم ہے دھواں دیکھتے رہنا
بوچھار ہے تیروں کی وہ رہوار اکیلا
کتنا ہے شتابی یہ سماں دیکھتے رہنا
دنیا کسی مقتل میں ہے زندوں کی گواہی
جاتے ہیں کہاں پیر و جواں دیکھتے رہنا
ہوگی کسی منجدھار کے سینے پہ مری ناؤ
دریا ہے مرے ساتھ رواں دیکھتے رہنا
تاریک افق پر وہ عجب شان سے نکلا
خورشیدؔ سے روشن ہے جہاں دیکھتے رہنا
غزل
اسباب کہاں جان جہاں دیکھتے رہنا
خورشید اکبر