اثر نہ ہو تو اسی نطق بے اثر سے کہہ
چھپا نہ درد محبت جہان بھر سے کہہ
جو کہہ چکا ہے تو انداز تازہ تر سے کہہ
خبر کی بات ہے اک گوش بے خبر سے کہہ
چمن چمن سے اکھڑ کر رہے گا پائے خزاں
روش روش کو جتا دے شجر شجر سے کہہ
بیان شوق نہیں قیل و قال کا محتاج
کبھی فغاں میں ادا کر کبھی نظر سے کہہ
وزیر و میر کے کیا گوش بے اثر سے خطاب
مراد دل کی گدایان رہگزر سے کہہ
شباب تشنہ کی خوں بار نوشیوں کو نہ بھول
مرے فسانۂ رنگیں کو پیشتر سے کہہ
سفر سے شرط حیات اور جہت ہے شرط سفر
پکار کر یہ رفیقان ہم سفر سے کہہ
غزل
اثر نہ ہو تو اسی نطق بے اثر سے کہہ
شان الحق حقی