EN हिंदी
اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ پھر کہیں کا | شیح شیری
asar ke pichhe dil-e-hazin ne nishan chhoDa na phir kahin ka

غزل

اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ پھر کہیں کا

شبلی نعمانی

;

اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ پھر کہیں کا
گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا

بھلی تھی تقدیر یا بری تھی یہ راز کس طرح سے عیاں ہو
بتوں کو سجدے کئے ہیں اتنے کہ مٹ گیا سب لکھا جبیں کا

وہی لڑکپن کی شوخیاں ہیں وہ اگلی ہی سہی شرارتیں ہیں
سیانے ہوں گے تو ہاں بھی ہوگی ابھی تو سن ہے نہیں نہیں کا

یہ نظم آئیں یہ طرز بندش سخنوری ہے فسوں گری ہے
کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلیؔ مزہ ہے طرز علی حزیںؔ کا