اثر کر کے آہ رسا پھر گئی
ہوا صاف مطلع ہوا پھر گئی
سواری تری آ کے کیا پھر گئی
ادھر کو ادھر کی ہوا پھر گئی
مرے سر سے تیغ جفا پھر گئی
کئی بار آئی قضا پھر گئی
گیا دیو غم جلوۂ یار سے
پری زاد آیا بلا پھر گئی
یہ جاں بخش اس جانستاں کی ہے چال
وہ آیا جو پھر کر قضا پھر گئی
گھڑی دو گھڑی کا ہے تیرا مریض
طبیب اٹھ گئے ہر دوا پھر گئی
تو آتا نہیں اس گلی میں منیرؔ
طبیعت تری ہم سے کیا پھر گئی
غزل
اثر کر کے آہ رسا پھر گئی
منیرؔ شکوہ آبادی