EN हिंदी
اثرؔ اب تک فریب کھاتا ہے | شیح شیری
asar ab tak fareb khata hai

غزل

اثرؔ اب تک فریب کھاتا ہے

میر اثر

;

اثرؔ اب تک فریب کھاتا ہے
تیری باتوں کو مان جاتا ہے

دل کڑا کر کے تجھ سے کچھ تو کہوں
جی میں سو بار یہ ہی آتا ہے

خوش گزرتی نہیں ہے کوئی آن
اشتیاق اب نپٹ ستاتا ہے

دل کو وعدے سے کل نہیں ہوتی
روز تو آج کل بتاتا ہے

بت کافر کی بے مروتیاں
یہ ہمیں سب خدا دکھاتا ہے

دل مرا تو نے ہی چرایا ہے
نہیں یوں نظریں کیوں چراتا ہے

میں بھی ناصح اسے سمجھتا ہوں
گو برا ہے پہ مجھ کو بھاتا ہے

تیرے در پر میں کب کب آتا ہوں
دل مجھے بار بار لاتا ہے

نالہ و آہ کو مرے سن کر
کہتے ہو یاں کسے سناتا ہے

روز و شب کس طرح بسر میں کروں
غم ترا اب تو جی ہی کھاتا ہے

دل نا قدر داں یہ گوہر اشک
نت یوں ہی خاک میں ملاتا ہے

جی ہی جاتا ہے دم بہ دم میرا
تجھ کو باور نہیں یہ آتا ہے

شمع رو دل یہ مثل پروانہ
ناحق اپنے تئیں جلاتا ہے

تیری ان شعلہ خویوں کے حضور
بے طرح تجھ پہ جی جلاتا ہے

کیا کروں آہ میں اثرؔ کا علاج
اس گھڑی اس کا جی ہی جاتا ہے