عرش و کرسی کی خبر لائے ہیں لانے والے
ایک موسیٰ ہی نہ تھے طور کے جانے والے
طور کو تم نے جلایا تو بڑی بات نہ کی
آگ پانی میں لگاتے ہیں لگانے والے
میرے مرقد کو بھی آ کر کبھی ٹھکرا جانا
ارے او فتنۂ محشر کے جگانے والے
ایک عالم ترے عاشق نے کیا خال سیاہ
دو ہی نالے کیے تھے طور جلانے والے
کب تلک اپنے کرشمے ہمیں دکھلاؤ گے
اے میاں روز نئے طرز دکھانے والے
میری تقدیر جو پلٹے تو تعجب کیا ہے
سنتے ہیں بگڑی بناتے ہیں بنانے والے
تم جو آنکھوں میں مری آئے تو احسان کیا
آنکھیں کیا دل میں سماتے ہیں سمانے والے
لاکھ ہو مانع فریاد مگر کیا ہوگا
عرش کو سر پہ اٹھا لیں گے اٹھانے والے
اپنی قسمت نہیں ایسی کہ ہو دیدار انجمؔ
منتظر جن کے ہیں کب آئیں وہ آنے والے
غزل
عرش و کرسی کی خبر لائے ہیں لانے والے
مرزا آسمان جاہ انجم