عرش کے تارے توڑ کے لائیں کاوش لوگ ہزار کریں
میرؔ کی بات کہاں سے پائیں آخر کو اقرار کریں
آپ اسے حسن طلب مت سمجھیں نا کچھ اور شمار کریں
شعر اک میرؔ فقیر کا ہم جو آپ کے گوش گزار کریں
آج ہمارے گھر آیا لو کیا ہے جو تجھ پہ نثار کریں
الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں
کب کی ہمارے عشق کی نوبت قیس سے آگے جا پہنچی
رسماً لوگ ابھی تک اس مرحوم کا ذکر اذکار کریں
درج چشم میں اشک کے موتی لے جانے ہیں ان کے حضور
چوکھا رنگ لہو کا دے کر اور انہیں شہوار کریں
دین و دل و جاں سب سرمایہ جس میں اپنا صرف ہوا
عشق یہ کاروبار نہیں کیا اور جو کاروبار کریں
جتنے بھی دل ریش ہیں اس کے سب کو نامے بھیج بلا
اس بے مہر وفا دشمن کی یادوں کا دربار کریں
غزل
عرش کے تارے توڑ کے لائیں کاوش لوگ ہزار کریں
ابن انشا