عرصۂ ماہ و سال سے گزرے
رات راہ وصال سے گزرے
تم کہ عہد وفا نبھا کے میرؔ
کتنے رنج و ملال سے گزرے
آ شب وصل مختصر ہے بہت
کون شرط سوال سے گزرے
کیا بتائیں کہ تیرے کوچے سے
کس ہنر کس کمال سے گزرے
کون تھا وہ کہ جس کی چاہت میں
خواب بن کر خیال سے گزرے
دشت وحشت سے تیرے دیوانے
کیسے جاہ و جلال سے گزرے
گردش وقت تھم گئی عادلؔ
تم جو شہر مثال سے گزرے
غزل
عرصۂ ماہ و سال سے گزرے
عادل فریدی