عرصۂ خواب سے اٹھ حلقۂ تعبیر میں آ
گمشدہ رعب جنوں کاسۂ تشہیر میں آ
انتہا مبدائے ہستی کی فنا ہے یا بقا
غور سے دیکھتے ہیں بخت کی تصویر میں آ
اے خرابات تنفر کے پریشان مکیں
گر سکوں چاہتا ہے عشق کی تعمیر میں آ
حدت دید نگاہوں کی عبارت سے نکل
اور یخ بستہ مرے روزن تحریر میں آ
چڑھ کے پھر سر پہ مرے بولے اسیری کا خمار
قید کر لے مجھے پھر زلف کی زنجیر میں آ
عہد ماضی کے خوش آئند بھٹکتے لمحے
وقت آ پہونچا ہے اب حال کی جاگیر میں آ
جل بجھے گرمیٔ انفاس سے دونوں کا وجود
گھولنے خود کو مرے قرب کی تاثیر میں آ
لذت وصل کو حاصل ہو زمیں کی جنت
مجھ سے ملنے کے لئے وادئ کشمیر میں آ
زیر پا رکھ کے سبھی عکس فسون تقدیر
پھر جواں ہونے کو گہوارۂ تدبیر میں آ
اے خزاں زاد اگر چاہتا ہے رزق بہار
دامن زیست لئے روضۂ شبیر میں آ
عاجزی کہنے لگی گر ہو بلندی کی طلب
دل جھکا دائرۂ نعرۂ تکبیر میں آ
دیا اگتے ہوئے سورج نے یہ پیغام ندیمؔ
ان اندھیروں سے نکل خیمۂ تنویر میں آ
غزل
عرصۂ خواب سے اٹھ حلقۂ تعبیر میں آ
ندیم سرسوی