عرصۂ ہر دو جہاں عالم تنہائی ہے
کہ جدھر دیکھیے تو ہے تری یکتائی ہے
بے نیازی ہے خود آرائی ہے خود رائی ہے
آپ کی جانے بلا کون تمنائی ہے
پاتے ہیں لطف حیات ابدی تیرے شہید
ذبح کرنا ترا اعجاز مسیحائی ہے
تم کو کیفیؔ سے تعلق تو نہ ہوگا لیکن
جان پہچان ملاقات شناسائی ہے
غزل
عرصۂ ہر دو جہاں عالم تنہائی ہے
کیفی حیدرآبادی