EN हिंदी
عرصۂ ہر دو جہاں عالم تنہائی ہے | شیح شیری
arsa-e-har-do-jahan aalam-e-tanhai hai

غزل

عرصۂ ہر دو جہاں عالم تنہائی ہے

کیفی حیدرآبادی

;

عرصۂ ہر دو جہاں عالم تنہائی ہے
کہ جدھر دیکھیے تو ہے تری یکتائی ہے

بے نیازی ہے خود آرائی ہے خود رائی ہے
آپ کی جانے بلا کون تمنائی ہے

پاتے ہیں لطف حیات ابدی تیرے شہید
ذبح کرنا ترا اعجاز مسیحائی ہے

تم کو کیفیؔ سے تعلق تو نہ ہوگا لیکن
جان پہچان ملاقات شناسائی ہے