عرق جب اس پری کے چہرۂ پر نور سے ٹپکے
خجل ہو گل سے شبنم جوں لہو ناسور سے ٹپکے
مری آنکھوں سے خونیں اشک یوں گرتے ہیں پلکوں پر
لہو سولی کے اوپر جوں سر منصور سے ٹپکے
اگر کیف سخن میرا نہال تاک کو پہنچے
صراحی شاخ بن جاوے شراب انگور سے ٹپکے
اگر اس زلف مشک آمیز سے چنی میں بال آوے
عجب میں عطر و عنبر کاسۂ نغفور سے ٹپکے
کروں فریاد رو رو یار کو جب یاد کر عاجزؔ
دم اسرافیل کا لوہو ہو بانگ صور سے ٹپکے
غزل
عرق جب اس پری کے چہرۂ پر نور سے ٹپکے
عارف الدین عاجز