عقل سے حاصل ہوئی کیا کیا پشیمانی مجھے
عشق جب دینے لگا تعلیم نادانی مجھے
رنج دے گی باغ رضواں کی تن آسانی مجھے
یاد آئے گا ترا لطف ستم رانی مجھے
میری جانب ہے مخاطب خاص کر وہ چشم ناز
اب تو کرنی ہی پڑے گی دل کی قربانی مجھے
دیکھ لے اب کہیں آ کر جو وہ غفلت شعار
کس قدر ہو جائے مر جانے میں آسانی مجھے
بے نقاب آنے کو ہیں مقتل میں وہ بے شک مگر
دیکھنے کاہے کو دے گی میری حیرانی مجھے
سینکڑوں آزادیاں اس قید پر حسرتؔ نثار
جس کے باعث کہتے ہیں سب ان کا زندانی مجھے
غزل
عقل سے حاصل ہوئی کیا کیا پشیمانی مجھے
حسرتؔ موہانی