عقل نے لاکھ اندھیروں میں چھپایا ہے تجھے
میرا وجدان مگر چوم کے آیا ہے تجھے
وہ طلسمات نظر آئے کہ دیکھے نہ سنے
جب بھی آنکھوں کے چراغوں میں جلایا ہے تجھے
رات بھیگی ہے تو چھیڑا ہے ترے درد کا ساز
چاند نکلا ہے تو چپکے سے جگایا ہے تجھے
میں تو کیا وقت بھی اب چھو نہ سکے گا تجھ کو
عشق نے مسند یزداں پہ بٹھایا ہے تجھے
وہ ترا حسن کہ خیرہ تھی زمانے کی نظر
یہ مرا فن کہ ترا عکس دکھایا ہے تجھے
آج بھی ذہن میں بجلی سی چمک اٹھتی ہے
کون بھولا ہے تجھے کس نے بھلایا ہے تجھے
جگمگاتی ہے مری روح تو میں سوچتا ہوں
میں نے کھویا ہے مری جان کہ پایا ہے تجھے
غزل
عقل نے لاکھ اندھیروں میں چھپایا ہے تجھے
نور بجنوری