عقل کی سطح سے کچھ اور ابھر جانا تھا
عشق کو منزل پستی سے گزر جانا تھا
جلوے تھے حلقۂ سر دام نظر سے باہر
میں نے ہر جلوے کو پابند نظر جانا تھا
حسن کا غم بھی حسیں فکر حسیں درد حسیں
ان کو ہر رنگ میں ہر طور سنور جانا تھا
حسن نے شوق کے ہنگامے تو دیکھے تھے بہت
عشق کے دعوئے تقدیس سے ڈر جانا تھا
یہ تو کیا کہئے چلا تھا میں کہاں سے ہم دم
مجھ کو یہ بھی نہ تھا معلوم کدھر جانا تھا
حسن اور عشق کو دے طعنۂ بیداد مجازؔ
تم کو تو صرف اسی بات پر مر جانا تھا
غزل
عقل کی سطح سے کچھ اور ابھر جانا تھا
اسرار الحق مجاز