EN हिंदी
عقل کے جال میں پھنسی ہی نہیں | شیح شیری
aql ke jal mein phansi hi nahin

غزل

عقل کے جال میں پھنسی ہی نہیں

منیر سیفی

;

عقل کے جال میں پھنسی ہی نہیں
زندگی آج تک کھلی ہی نہیں

مجھ میں جیتا رہا سدا کوئی
زندگی اپنی میں نے جی ہی نہیں

سخت اتنی انا کی تھی دیوار
پھر کسی بھی طرح گری ہی نہیں

میں نے دنیا سمیٹ لی تو کھلا
کام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں

چاند کے ساتھ ہو گئی رخصت
جیسے وہ اس جہاں کی تھی ہی نہیں

جس سے سیراب روح ہو جاتی
ایسی بارش کبھی ہوئی ہی نہیں

سینکڑوں زخم ہیں زمانے کے
دل میں یادوں کی اک انی ہی نہیں

قید آنکھوں میں ہے بیاباں بھی
غم کے کوزے میں اک ندی ہی نہیں