عقل دوڑائی بہت کچھ تو گماں تک پہنچے
کچھ حقیقت بھی ہے انساں کی کہاں تک پہنچے
عشق کے شعلے بھڑک کر رگ جاں تک پہنچے
آگ سی آگ ہے یہ آگ جہاں تک پہنچے
لڑ گئی ان سے نظر کھچ گئے ابرو ان کے
معرکے عشق کے اب تیر و کماں تک پہنچے
دل سے باہر ہو ترا راز گوارا ہے کسے
یہ کوئی بات نہیں ہے کہ زباں تک پہنچے
مار لے وہ نگۂ ناز تو رتبہ ہو بلند
سر ہو اونچا مرا گر نوک سناں تک پہنچے
کوئی دیوانگئ عشق کا قصہ چھیڑے
سلسلہ اس کا خدا جانے کہاں تک پہنچے
سرخیٔ خار بیاباں یہ پتہ دیتی ہے
کہ ادھر سے ترے دیوانے یہاں تک پہنچے
رند پر کیف بہ یک گردش چشم ساقی
غایت دائرۂ کون و مکاں تک پہنچے
رخ سے پردہ کو ہٹا حسن یقیں تک پہنچا
آخر انسان ہوں یوں عقل کہاں تک پہنچے
راہ میں اور بھی دیوانوں سے ملتے جلتے
پوچھتے پوچھتے ہم ان کے مکاں تک پہنچے
شربت دید نہ ہو تیغ کا پانی ہی سہی
کوئی ٹھنڈک تو مرے قلب تپاں تک پہنچے
لے گئے عشق کی بازی پہ صفائی بیتابؔ
جان پر کھیل گئے جان جہاں تک پہنچے
غزل
عقل دوڑائی بہت کچھ تو گماں تک پہنچے
بیتاب عظیم آبادی