اپنوں کی ٹوٹتی ہوئی تصویر دیکھ لی
اغیار کی بھی چاہ میں تاثیر دیکھ لی
آیا نہیں ہے ہوش نگاہوں کو اب تلک
بکھرے ہوئے جو خوابوں کی تعبیر دیکھ لی
کیا مانگتا میں تیری پشیمانی کا ثبوت
آنکھوں سے بہتے اشکوں میں تعزیر دیکھ لی
اب تک دکھے پرندے اسیر قفس مگر
صیاد کے بھی ہاتھ میں زنجیر دیکھ لی
تھا جس کے پیچ و خم پہ یہ سارا جہاں فدا
لو ہم نے بھی وہ زلف گرہ گیر دیکھ لی
ناقدؔ ہے بے زبان کھڑا در پہ نامہ بر
چہرے پہ اس کے آپ کی تحریر دیکھ لی
غزل
اپنوں کی ٹوٹتی ہوئی تصویر دیکھ لی
ؔآدتیہ پنت ناقد