اپنی الجھن کو بڑھانے کی ضرورت کیا ہے
چھوڑنا ہے تو بہانے کی ضرورت کیا ہے
لگ چکی آگ تو لازم ہے دھواں اٹھے گا
درد کو دل میں چھپانے کی ضرورت کیا ہے
عمر بھر رہنا ہے تعبیر سے گر دور تمہیں
پھر مرے خواب میں آنے کی ضرورت کیا ہے
اجنبی رنگ چھلکتا ہو اگر آنکھوں سے
ان سے پھر ہاتھ ملانے کی ضرورت کیا ہے
آج بیٹھے ہیں ترے پاس کئی دوست نئے
اب تجھے دوست پرانے کی ضرورت کیا ہے
ساتھ رہتے ہو مگر ساتھ نہیں رہتے ہو
ایسے رشتے کو نبھانے کی ضرورت کیا ہے
غزل
اپنی الجھن کو بڑھانے کی ضرورت کیا ہے
ندیم گلانی