اپنی تو گزری ہے اکثر اپنی ہی من مانی میں
لیکن اچھے کام بھی ہم نے کر ڈالے نادانی میں
ہم ٹھہرے آوارہ پنچھی سیر گگن کی کرتے ہیں
جان کے ہم کو کیا کرنا ہے کون ہے کتنے پانی میں
روح کو اس کی راہ کا پتھر بننا ہی منظور نہ تھا
بازی ہم نے ہی جیتی ہے اپنی اس قربانی میں
یار نئی کچھ بات اگر ہو ہم بھی سجدہ کر لیں گے
اکثر ایک ہی بات سنی ہے سب سنتوں کی بانی میں
محنت کر کے ہم تو آخر بھوکے بھی سو جائیں گے
یا مولا تو برکت رکھنا بچوں کی گڑ دھانی میں
موقعے تو ہم تک بھی آئے خوب کما کھا لیتے ہم
لیکن ایک ضمیر تھا بھیتر اللہ کی نگرانی میں
غزل
اپنی تو گزری ہے اکثر اپنی ہی من مانی میں
ولاس پنڈت مسافر