اپنی طرح مجھے بھی زمانے میں عام کر
اے ذات عنبریں مجھے خوشبو مقام کر
ان پتھروں کو راکھ نہ کر سوز نطق سے
مجھ سے کلام کر کبھی مجھ سے کلام کر
صدیوں کی میں کشید ہوں اے ساقیٔ ازل
میرے وجود کو بھی کبھی صرف جام کر
آزاد ہو چکا ہوں میں قید حواس سے
بام نظر سے اب مرا بالا مقام کر
مجھ کو نشان سلطنت بے نشان دے
دنیائے نام و ننگ کو بے ننگ و نام کر
سارا نظام شمس کہیں یہ بجھا نہ دے
اس سوختہ کرن کا کوئی انتظام کر
عالم میں ہے ثبات فقط میری روح کو
مجھ میں سما کے اب کوئی کار دوام کر
کوئی مکین قریۂ جاں تو بھی ڈھونڈھ لے
تو بھی رشیدؔ آج کسی کو سلام کر

غزل
اپنی طرح مجھے بھی زمانے میں عام کر
رشید قیصرانی