اپنی تنہائی کا سامان اٹھا لائے ہیں
آج ہم میرؔ کا دیوان اٹھا لائے ہیں
ان دنوں اپنی بھی وحشت کا عجب عالم ہے
گھر میں ہم دشت و بیابان اٹھا لائے ہیں
وسعت حلقۂ زنجیر کی آواز کے ساتھ
ہم وہ قیدی ہیں کہ زندان اٹھا لائے ہیں
میرے سانسوں میں کوئی گھولتا رہتا ہے الاؤ
اپنے سینے میں وہ طوفان اٹھا لائے ہیں
اک نئے طرز پہ آباد کریں گے اس کو
ہم ترے شہر کی پہچان اٹھا لائے ہیں
زندگی خود سے مکرنے نہیں دیں گے تجھ کو
اپنے ہونے کے سب امکان اٹھا لائے ہیں
ہم نے نقصان میں امکان کو رکھا ہی نہیں
جتنے ممکن تھے وہ نقصان اٹھا لائے ہیں
کچھ تو شاہدؔ کو بھی نسبت رہی ہوگی اس سے
وہ جو ٹوٹا ہوا گلدان اٹھا لائے ہیں
غزل
اپنی تنہائی کا سامان اٹھا لائے ہیں
شاہد کمال