اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
اس گلی میں بکھر رہا ہوں میں
جتنا جتنا جھکا رہا ہوں سر
اتنا اتنا ابھر رہا ہوں میں
اک صحیفہ ہوں آسمانوں کا
اور زمیں پر اتر رہا ہوں میں
گردش وقت روکنی ہے مجھے
اس لیے رقص کر رہا ہوں میں
قیس کے بھی قدم نہیں ہیں جہاں
اس جگہ سے گزر رہا ہوں میں
پوچھ لو مجھ سے آسمان کے راز
کچھ دنوں تک ادھر رہا ہوں میں
غزل
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
عارف امام