EN हिंदी
اپنی تہذیب کی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں | شیح شیری
apni tahzib ki diwar sambhaale hue hain

غزل

اپنی تہذیب کی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں

سلطان اختر

;

اپنی تہذیب کی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں
میرے بچے مرا گھر بار سنبھالے ہوئے ہیں

تو نے کچھ بھی نہ دیا ہم کو اذیت کے سوا
زندگی ہم تجھے بے کار سنبھالے ہوئے ہیں

کوئی آتا نہیں اب ان کی قدم بوسی کو
دونوں ہاتھوں سے وہ دستار سنبھالے ہوئے ہیں

وقت سے آگے نکل جائیں گے جب چاہیں گے
دل گرفتہ ابھی رفتار سنبھالے ہوئے ہیں

مفلسی جھانکتی ہے روزن و در سے لیکن
ہم لرزتی ہوئی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں

یہ بھی اک طرفہ تماشا ہے خداوند جہاں
تیری دنیا کو گنہ گار سنبھالے ہوئے ہیں

فاقہ مستی میں بھی جیتے ہیں بہ آغاز جنوں
زندگی ہم ترا پندار سنبھالے ہوئے ہیں

آب دیدہ کبھی ہونے نہیں دیتے اخترؔ
مجھ کو اب تک مرے غم خوار سنبھالے ہوئے ہیں