اپنی صورت کو بدلنا ہی نہیں چاہتا میں
اب کسی سانچے میں ڈھلنا ہی نہیں چاہتا میں
تم اگر مجھ سے محبت نہیں کرتے نہ سہی
ایسی باتوں سے بہلنا ہی نہیں چاہتا میں
یا مرے پاؤں میں قوت ہی نہیں ہے اتنی
یا تری راہ پہ چلنا ہی نہیں چاہتا میں
سنتا رہتا ہوں صدائیں تری دستک کی مگر
اپنے کمرے سے نکلنا ہی نہیں چاہتا میں
یہ بھی سچ ہے کہ سنبھلنا ہے ضروری میرا
یہ بھی سچ ہے کہ سنبھلنا ہی نہیں چاہتا میں
غزل
اپنی صورت کو بدلنا ہی نہیں چاہتا میں
سرفراز خالد