اپنی سوچیں شکست و خام نہ کر
چل پڑا ہے تو پھر قیام نہ کر
میں بھی حساس دل کا مالک ہوں
سارے احساس اپنے نام نہ کر
جسم چاہے غلام ہو جائے
ذہنیت کو مگر غلام نہ کر
میں خود اپنی نظر سے گر جاؤں
تو مرا اتنا احترام نہ کر
تیرے پیچھے غبار اڑنے لگے
خود کو تو اتنا تیز گام نہ کر
لوگ مشکوک ہو چلے آزرؔ
اب ہر اک شخص کو سلام نہ کر

غزل
اپنی سوچیں شکست و خام نہ کر
مشتاق آذر فریدی