EN हिंदी
اپنی سچائی کا آزار جو پالے ہوئے ہیں | شیح شیری
apni sachchai ka aazar jo pale hue hain

غزل

اپنی سچائی کا آزار جو پالے ہوئے ہیں

ارمان نجمی

;

اپنی سچائی کا آزار جو پالے ہوئے ہیں
خود کو ہم گردش آفات میں ڈالے ہوئے ہیں

بند مٹھی میں جو خوشبو کو سنبھالے ہوئے ہیں
یہ سمجھتے ہیں کہ طوفان کو ٹالے ہوئے ہیں

ہیں تو آباد مگر در بدری کی زد پر
وہ بھی میری ہی طرح گھر سے نکالے ہوئے ہیں

اپنی رفتار سے آگے بھی نکل سکتا ہوں
مجھ پہ کب حاوی مرے پاؤں کے چھالے ہوئے ہیں

اب کسی باب سماعت پہ نہ دستک دیں گے
دفن صحرا کی فضاؤں میں جو نالے ہوئے ہیں

سرخ رو جو ہے وہ میرا کوئی ہم زاد ہے کیا
نوک نیزہ پہ وہ سر کس کا اچھالے ہوئے ہیں

ان کے شانے ہیں ہر اک بار گراں سے خالی
اب وہ دستار نہیں سر کو سنبھالے ہوئے ہیں

وضع کا پاس بھی رکھنے کے رہے اہل کہاں
خود کو ہم اور کسی سانچے میں ڈھالے ہوئے ہیں

اس کی خوشبو سے طلسمات کا در کھلنے لگا
دیدہ و دل قد و گیسو کے حوالے ہوئے ہیں