اپنی ساری کاوشوں کو رائیگاں میں نے کیا
میرے اندر جو نہ تھا اس کو بیاں میں نے کیا
سر پہ جب سایا رہا کوئی نہ دوران سفر
اس کی یادوں کو پھر اپنا سائباں میں نے کیا
اب یہاں پر سانس تک لینا مجھے دشوار ہے
کس تمنا پر زمیں کو آسماں میں نے کیا
لمحہ لمحہ وقت کے ہاتھوں کیا خود کو سپرد
سب گنوا بیٹھا تو پھر فکر زیاں میں نے کیا
جب نہ اس کے اور میرے درمیاں کچھ بھی رہا
خود کو ہی پھر اس کے اپنے درمیاں میں نے کیا
دونوں چپ تھے زور سے چلتی ہوا کے سامنے
پھر اچانک خشک پتوں کو زباں میں نے کیا
غزل
اپنی ساری کاوشوں کو رائیگاں میں نے کیا
آزاد گلاٹی