اپنی نظر میں آپ کو رسوا نہ کر سکے
ہم دشمنوں کے ساتھ بھی دھوکا نہ کر سکے
سب راستوں کا علم تھا منزل قریب تھی
افسوس ہم سفر کا ارادہ نہ کر سکے
آنکھیں اسیر ذہن گرفتار لب بہ قفل
ان کے حضور ایک اشارہ نہ کر سکے
ان کا ستم تو خیر بہت سہہ لیا مگر
ان کے کرم کا بوجھ گوارا نہ کر سکے
یاران غم گسار دلاسے تسلیاں
تنکے تھے جن پہ کوئی سہارا نہ کر سکے
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
لیکن کسی پہ راز یہ افشا نہ کر سکے
ظلمت پرست چراغ تھے ایسے بھی کچھ رضاؔ
جلتے رہے مگر جو اجالا نہ کر سکے
غزل
اپنی نظر میں آپ کو رسوا نہ کر سکے
موسیٰ رضا